Search This Blog

Thursday, January 24, 2019

Privacy Policy

Privacy Policy

Nukta Guidance built the Free Book & Urdu News app as a Free app. This SERVICE is provided by Nukta Guidance at no cost and is intended for use as is.
This page is used to inform visitors regarding my policies with the collection, use, and disclosure of Personal Information if anyone decided to use my Service.
If you choose to use my Service, then you agree to the collection and use of information in relation to this policy. The Personal Information that I collect is used for providing and improving the Service. I will not use or share your information with anyone except as described in this Privacy Policy.
The terms used in this Privacy Policy have the same meanings as in our Terms and Conditions, which is accessible at Free Book & Urdu News unless otherwise defined in this Privacy Policy.
Information Collection and Use
For a better experience, while using our Service, I may require you to provide us with certain personally identifiable information, including but not limited to photos, media and files and Device location. The information that I request will be retained on your device and is not collected by me in any way.
The app does use third party services that may collect information used to identify you.
Link to privacy policy of third party service providers used by the app
Log Data
I want to inform you that whenever you use my Service, in a case of an error in the app I collect data and information (through third party products) on your phone called Log Data. This Log Data may include information such as your device Internet Protocol (“IP”) address, device name, operating system version, the configuration of the app when utilizing my Service, the time and date of your use of the Service, and other statistics.
Cookies
Cookies are files with a small amount of data that are commonly used as anonymous unique identifiers. These are sent to your browser from the websites that you visit and are stored on your device's internal memory.
This Service does not use these “cookies” explicitly. However, the app may use third party code and libraries that use “cookies” to collect information and improve their services. You have the option to either accept or refuse these cookies and know when a cookie is being sent to your device. If you choose to refuse our cookies, you may not be able to use some portions of this Service.
Service Providers
I may employ third-party companies and individuals due to the following reasons:
  • To facilitate our Service;
  • To provide the Service on our behalf;
  • To perform Service-related services; or
  • To assist us in analyzing how our Service is used.
I want to inform users of this Service that these third parties have access to your Personal Information. The reason is to perform the tasks assigned to them on our behalf. However, they are obligated not to disclose or use the information for any other purpose.
Security
I value your trust in providing us your Personal Information, thus we are striving to use commercially acceptable means of protecting it. But remember that no method of transmission over the internet, or method of electronic storage is 100% secure and reliable, and I cannot guarantee its absolute security.
Links to Other Sites
This Service may contain links to other sites. If you click on a third-party link, you will be directed to that site. Note that these external sites are not operated by me. Therefore, I strongly advise you to review the Privacy Policy of these websites. I have no control over and assume no responsibility for the content, privacy policies, or practices of any third-party sites or services.
Children’s Privacy
These Services do not address anyone under the age of 13. I do not knowingly collect personally identifiable information from children under 13. In the case I discover that a child under 13 has provided me with personal information, I immediately delete this from our servers. If you are a parent or guardian and you are aware that your child has provided us with personal information, please contact me so that I will be able to do necessary actions.
Changes to This Privacy Policy
I may update our Privacy Policy from time to time. Thus, you are advised to review this page periodically for any changes. I will notify you of any changes by posting the new Privacy Policy on this page. These changes are effective immediately after they are posted on this page.
Contact Us
If you have any questions or suggestions about my Privacy Policy, do not hesitate to contact me.

Tuesday, November 20, 2018

ذہین افراد کی چودہ نشانیاں

کیا آپ غیر معمولی ذہانت کے حامل ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے بارے میں ہر کوئی خاص طور پرنوجوان نسل بہت متجسس رہتی ہے۔
عموما مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ جو افراد ذہین یا حد سے زیادہ ذہین ہونے کے دعویدار ہوتے ہیں ان کی علمی صلاحیت اس پیمانے پر پورا نہیں اترتی، کیونکہ ذہین اور عملی طور پر تیز ہونا 2 علیحدہ خصوصیات ہیں، ضروری نہیں کہ جو لوگ عملی زندگی میں نہایت کامیاب ہوں، وہ ذہین بھی ہوں، یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ غیر معمولی دماغی صلاحیتوں کے حامل افراد عملی زندگی میں دوسروں سے پیچھے رہ جاتے ہیں،اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کا وجدان عام افراد سے مختلف ہوتا ہے اور اپنے طے کردہ اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرتے۔
لیکن ہم آپ کو اس ویڈیو کے ذریعے ذہین افراد کی ایسی عام نشانیاں بتائیں گے، جن سے یہ پتہ لگانا ممکن بن جاتا ہے کہ کون ذہین ہے اور کون نہیں، یہ یاد رہے کہ یہ نشانیاں مختلف سائنسی رسائل میں شائع ان تحقیقاتی رپورٹس میں بتائی گئیں، جو ماہرین نے کئی سال تک دنیا کے مختلف ممالک کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد پر تحقیق کے بعد تیار کیں۔
کئی سال کی تحقیقات کا نچوڑ کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص مندرجہ ذیل 14 یا ان میں سے زیادہ تر عادات کا  مالک ہے تو بلاشبہ اس کا شمار ذہین یا غیر معمولی ذہین افراد میں کیا جائیگا۔
1۔یکسانیت
ان خصوصیات میں صف اول پر انسانی ذہن کا ارتکاز ہے، اگر کوئی شخص سالہا سال یا لمبے عرصے تک اپنی توجہ ایک ہی کام پر مبذول رکھ کراس کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر دم لے تو بلاشبہ وہ غیر معمولی ذہنی صلاحیتیوں کا حامل ہے، ایسے افراد ثانوی باتوں کو اہمیت دینے کے بجائے اپنی توجہ جزیات پر رکھتے ہوئے کم سے کم وقت میں اپنا مقصد یا منزل حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
2۔کم سونا
دوسرے نمبر پر انسان کے سونے اور جاگنے کا معمول ہے، عمو ما مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ جو بچے زیادہ ذہین ہوں، وہ دوسرے بچوں کی نسبت نہ صرف کم سوتے ہیں، بلکہ ان کے سونے جاگنے کے اوقات بھی ان سے مختلف ہوتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آپ جان بوجھ کر کم سونا شروع کردیں ، اگر ایسا کریں گے تو آپ کی صحت کو نقصان ہو سکتا ہے۔ کم سونا ذہین افراد کی نشانی تو ہے لیکن ذہین بننے کی دوا یا کشتہ  نہیں ہے۔

3۔اصولوں پر سمجھوتا نہ کرنا
تیسری خصوصیت کا تعلق انسانی رویے سے ہے، غیر معمولی ذہنی صلاحیتوں کے حامل افراد سخت مزاج نہیں ہوتے، وہ لچک دار رویے کے ساتھ خود کو بہت جلد نئے ماحول میں ڈھال لینے اور نئے لوگوں کے ساتھ گھل مل جانے کے عادی ہوتے ہیں۔
اگرچہ اصولوں پر سمجھوتا نہ کرنے کے باعث عموما ذہین افراد کو مغرور سمجھا جاتا ہے، مگر در حقیقت وہ نرم دل اور معاون فطرت رکھتے ہیں، ہزاروں افراد پر نفسیاتی تحقیق کا نچوڑ بتاتا ہے کہ وہ افراد جو اپنی غلطی کھلے دل سے تسلیم کرکے نہ صرف اپنی اصلاح کرتے ہیں بلکہ اس تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے اپنے ماحول، دوستوں اور عزیز و اقرباء میں مثبت تبدیلیاں لانے کے لیے سر گرم رہتے ہیں وہ بلاشبہ غیر معمولی ذہین ہوتے ہیں۔
4۔کم علمی کو ظاہر کرنا
وہ افراد جو کسی بھی واقع یا چیز کے متعلق اپنی کم علمی کو چھپانے کے لیے مخالف پر چڑھ دوڑنے کے بجائے اپنی کم علمی کھلے دل سے تسلیم کر تے ہوئے اپنی معلومات بڑھانے کے لیے سر گرم ہوجائیں، ذہین اور با عمل افراد میں شمار کیے جاتے ہیں، ایسے افراد میں نہ تو احساس کمتری جنم لیتی ہے نہ ہی لا علمی یا ناکامی کا خوف ان کے راستے کی رکاوٹ بنتا ہے، لہذا وہ عملی زندگی میں بہت کامیاب ثابت ہوتے ہیں،اس حوالے سے عام لوگوں میں بہت غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ غیر معمولی ذہین وہ ہیں جو ہر شے کے بارے میں مکمل اور درست معلومات رکھتا ہو۔جدید سائنسی تحقیق کے مطابق ذہین وہ ہے جو یہ جانتا ہے کہ اسے کس چیز کے بارے میں علم ہے اور کس سے ناواقف ہے اور اس کا اعتراف کرنے میں بلکل نہیں ہچکچاتا کہ بہت سی علوم وفنون میں وہ ہنوز کورا ہے۔
5۔متجسس ہونا
سائنسی حلقوں میں مشہور ماہر طبیعات ' البرٹ آئن سٹائن' کی غیر معمولی ذہانت ہمیشہ سے موضوع بحث رہی ہے، اور اس کے بارے میں طرح طرح کے نظریات پیش کیے جاتے ہیں، مگرخود آئن سٹائن کا کہنا تھا کہ میں قطعا غیر معمولی ذہین نہیں ہوں، مگر میں حد سے زیادہ متجسس ضرو ر ہوں ۔یعنی تجسس بھی ذہانت کی ایک واضح علامت ہے،ایک تحقیق کے مطابق بچپن کی ذہانت اور تجربات کے ساتھ زندگی بتدریج بڑھتی جاتی ہے، مگراس بڑھوتری کی رفتار ان افراد میں تیز ترین دیکھی گئی جو لوگوں، چیزوں اور رویوں سے متعلق زیادہ تجسس کا مظاہرہ کرتےہیں، وہ درسی کتابوں میں لکھے کو حرف آخر سمجھ کر رٹا مارنے کے بجائے اس کی تہہ میں پہنچ کر نئی چیزیں دریافت کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔
6۔کھلے ذہن کا مالک ہونا
غیر معمولی ذہین ہونے کی ایک اور علامت کھلے ذہن کا مالک ہونا بھی ہے،اگرچہ پاکستان میں 'اوپن مائنڈڈ' کو کافی حد تک غلط معنوں میں لیا جاتا ہے، یہاں سائنسی نظریات کو بھی اعتقادات، تعصب اور ذاتی پسند ناپسند کی کسوٹی پرپرکھ کر نیوٹرل افراد کو شدید لعن طعن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مگر درحقیقت زندگی کے ہر شعبے میں کھلی ذہنیت کا مظاہرہ کرنے والے افراد ہی ذہین شمار کیے جاتے ہیں،ایسے افراد نہ صرف نئے تصورات میں حد سے زیادہ دلچسپی ظاہر کرتے ہیں، بلکہ اپنے پرانے فرسودہ خیالات کو تبدیل کرکے دوسروں کے صحیح آئیڈیاز کو قبول کرنے میں بلکل نہیں ہچکچاتے، نفسیات دان بھی اس رائے سے متفق ہیں کہ اسمارٹ لوگ لاجک پر مبنی زمینی حقائق کو با آسانی تسلیم کرکے ان کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
7۔تنہائی پسند
ایک برطانوی سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی نفسیاتی تحقیق کے مطابق غیر معمولی ذہین افراد زیادہ لوگوں میں گھرے رہنے کے بجائے تنہا رہنا پسند کرتے ہیں،ایسا نہیں کہ وہ بلکل ہی آدم بیزار ہوں اور دوست واحباب سے کٹ کر جینا پسند کرتے ہیں۔
نارمل افراد کی طرح ان کی بھی سوشل لائف، دوستوں کا وسیع حلقہ ہوتا ہے، مگر اکثر اوقات وہ تقریبات میں شرکت سے صرف اس لیے گریز کرتے ہیں کہ ان کا موڈ نہیں ہوتا، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ غیر معمولی ذہانت کے حامل افراد حد درجے کے موڈی ہوتے ہیں۔
8۔خود پر قابو رکھنا
اسمارٹ لوگوں کی ایک اور بڑی خصوصیت جو انھیں دیگر افراد سے ممتاز کرتی ہے، وہ ان کا 'سیلف کنٹرول' ہے، چاہے کام کے شدید دباؤ کے باعث تھکن ہو یا کسی کی جانب سے ان کے کام میں مداخلت و مزاحمت کی گئی ہو، وہ ہر طرح کی صورتحال میں خود پر پوری طرح قابو رکھتے ہوئے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بسا اوقات عام افراد جن باتوں پر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں یا پھر صورتحال سے فرار کا راستہ ڈھونڈتے ہیں،غیر معمولی ذہین افراد پوری یکسوئی اور ٹھنڈے مزاج کے ساتھ ان حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔
برطانوی جریدے میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق سیلف کنٹرول اور ذہانت دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے، انسانی دماغ کا ایک مخصوص حصہ جسے 'پری فرنٹل کورٹیکس' کہا جاتا ہے،ان عوامل کو کنٹرول کرتا ہے جس سے انسان اپنی ترجیہات وحدود اور زندگی گزارنے کے اصول متعین کرتا ہے، اور ذہین افراد کسی بھی صورت ان پر سمجھوتا نہیں کرتے۔
9۔حِس مزاح
انسانی زندگی اور تفریح کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے،سائنسدان اس امر پر متفق ہیں کہ اگر زندگی سے مزاح یا تفریح نکال دی جائے تو پھر انسان اور روبوٹ میں کوئی فرق نہیں رہے گا، غیر معمولی ذہین افراد جہاں اور بہت سی باتوں میں دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں، وہیں ان کی تیز اور بر جستہ حس مزاح بھی انھیں عام افراد سے ممتاز کرتی ہے، لیکن یہ مزاح کبھی بھی حد سے بڑھ کر نہیں ہوتا، نہ ہی کسی کی دل آزاری کا سبب  بنتا ہے۔ اس حوالے سے متعدد معروف کامیڈینز پر تحقیق کی گئی اور یہ بات سامنے آئی کہ تیز حس مزاح کے پیچھے دراصل ان کی غیر معمولی ذہانت کار فرما تھی۔
10۔دوسروں کا خیال رکھنا
وہ لوگ جو روز مرہ کے معمولات میں اپنے پیاروں اور دوست و احباب کے علاوہ عام افراد کے جذبات و احساسات کا بھی بھرپور خیال رکھتے ہوئے یہ کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ دوسروں کے لیے کارآمد ثابت ہو سکیں، اور کسی کی معمولی سی بھی دل آزاری کا سبب نہ بنیں،انسانی جذبات کو صحیح کسوٹی پر پرکھنے کی صلاحیت رکھنے والے ایسے افراد 'ایموشنلی انٹیلی جنٹ ' کہلاتے ہیں، یہ لوگ نئے جگہوں پر جانا اور نئے لوگوں میں گھلنا ملنا پسند کرتے ہیں، اور سیاحت و نفسیات کے دلدادہ ہوتے ہیں۔
11۔چیزوں کو مختلف زاویے سے دیکھنا
غیر معمولی ذہین افراد کی ایک اور بڑی خوبی ان کا گہرا اور سب سے مختلف وجدان یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کو دیکھنے اور ایسے قدرتی مظاہر کو کھوجنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جو عام افراد کی نظروں سے یکسر پوشیدہ ہوں،وہ عموما نئے اور اچھوتے تصورات میں دماغ کھپانا پسند کرتے ہیں، معروف صحافی چارلس ڈوہگ کی ڈزنی فلمز پر تحقیق کے مطابق 'فروزن' سمیت جن موویز نے ریکارڈ توڑ مقبولیت حاصل کی وہ ایسے ذہین افراد کی تخلیق ہیں جو پرانے آئیڈیاز کو نئے انداز میں پیش کرنے کا ہنر جانتے تھے۔
12۔کاموں میں التوا کرنا
اگرچہ اس حوالے سے متعدد افراد نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے، مگر بہت سی تحقیقات کا نچوڑ یہ بتاتا ہے کہ ایسے افراد جو کاموں کو التوا میں ڈال دیتے ہیں وہ غیر معمولی ذہین ہوتے ہیں،البتہ جو لوگ اپنی فطری کاہلی یا سستی کے باعث آج کا کام کل پر چھوڑ تے ہیں وہ ایسے لوگوں میں شمار نہیں کیے جاسکتے، جنہیں ذہین مانا جاتا ہے۔ لیکن ماہرین کے کچھ لوگ اپنے کاموں کو اس امید پر ملتوی کرتے رہتے ہیں کہ شاید کل صبح تک یا 2 چار دن تک کوئی نیا آئیڈیا ذہن میں آئے اور مذکورہ کام کو زیادہ اچھے طریقے سے پای تکمیل تک پہنچایا جاسکے، یقینا ایسے افراد کا شمار غیر معمولی ذہانت رکھنے والے افراد میں کیا جاتا ہے، اور تحقیق سے مشاہدہ کیا گیا کہ ان کا التوا کبھی بھی ضائع نہیں جاتا، ان کی'مائنڈ فیکٹری ' کوئی نہ کوئی نیا اچھوتا آئیڈیا ڈھونڈ ہی لیتی ہے۔
13۔کائنات کے راز جاننے کے لیے فکرمند رہنا
آخری نمبر پر ایک ایسی خصوصیت رکھی گئی ہے جس کو پڑھ کر یقینا بہت سے افراد حیرت زد رہ جائیں گے، جی ہاں، ایسے لوگ جو علم فلکیات، کونیات یا کائنات کے بارے میں حد سے زیادہ متجسس ہوں اور ان کی حقیقت کو جاننے کے لیے مستقل سرگرداں رہیں،بلاشبہ غیر معمولی ذہین افراد میں شمار کیے جاتے ہیں۔
درحقیقت یہ ان کا حد سے بڑھا ہوا تجسس اور دوسروں سے مختلف وجدان ہوتا ہے، جو انہیں نہ صرف اپنے ماحول، کائنات اور قدرتی عوامل کی معلومات پر اکساتا ہے، بلکہ وہ اپنے تجسس کی تسکین کے لیے کسی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے،بلاشبہ علم فلکیات ایسے ہی غیرمعمولی ذہین افراد کا انسانیت کے نام ایک تحفہ ہے۔
14۔اپنے آپ سے باتیں کرنا
ایک تحقیق کے مطابق اپنے آپ سے باتیں کرنا فائدہ مند ہوتا ہے اور اس سے کسی کو بحث میں قائل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ جو لوگ اپنے آپ سے باتیں کرتے ہیں ان کا دماغ زیادہ موثر طریقے سے کام کرتا ہے اور سیکھنے اور مقاصد کے حصول میں مدد دیتا ہے۔


Wednesday, November 7, 2018

چند دجالی فتنےجن کی لپیٹ میں ہم آچکے ہیں۔



ناظرین موجودہ دور دجالیت کے عروج کا دور ہے، اور یہ دجالیت کا دور ہمیں بڑی خاموشی سے دجال اکبر کے دور کی طرف تیار کرکے لے جارہا ہے۔دجالی فتنے اتنے زیادہ ہیں کہ ان کو شمار کرنا مشکل ہے، اس لیے بجائے ان کو تلاش کرنے کے اپنی حفاظت پر توجہ دینا زیادہ آسان کام ہے۔ البتہ آج کی اس ویڈیو میں پانچ بڑے دجالی فتنوں کے بارے آپ کو گائیڈنس دی جائے گی۔
اور وہ پانچ دجالی فتنے ہیں: 
1۔ کالا جادو        2۔ ایم کے الٹرا      3۔ مائیکرو چپس    4۔ شارٹ ویژن 5۔ بیک ٹریکنگ
اب ذرا ان پانچ چیزوں کے بارے تھوڑی سی جانکاری لیتے ہیں کہ یہ کیسے دجالی فتنے ہیں، اور کیسے ان کے ذریعے ہزاروں کلومیٹر دور بیٹھے دجالی پوری دنیا کے انسانوں پر نہ صرف اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ انہیں اپنی مرضی سے کنٹرول بھی کرتے ہیں۔
1۔ کالا جادو : یہودی اس میں سب سے ماہر ہیں۔ جس کا ظاہر و باطن جتنا پلید اور گندہ ہو گا اتنا وہ ماہر جادو گر ہوگا۔ اور سب سے بڑی گندگی توہین ہے۔ یعنی  اللہ کی توہین، انبیاء کی توہین، امہات المومنین کی اور صحابیات و صحابہ کی توہین۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ اکثر ایسی حرکات کرتے رہتے ہیںَ
یہ کالا جادو دنیا بھر میں نشر (broadcast) ہوتا یعنی پھیلایا جاتا ہے اور جہاں جہاں اس کے وصول کنندہ ہوتے ہیں وہاں سے مزید آگے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے موبائل کی سم  اور ٹاور کام کرتا ہے۔
بالکل ایسے ہی کالے جادو کے وصول کنندہ خاص نشانات ہوتے ہیں مثلا” والٹ ڈزنی کے کارٹون فگرز، بچوں کے لئے ہیری پوٹر، مکی ماؤس، سپر مین، بیٹ مین، سپائیڈر مین وغیرہ۔ اسی طرح  بچیوں کے لئے باربی، سنڈریلا، ایلسا (فروزن) وغیرہ۔
اس کے علاوہ کچھ نشانات جیسے تکونیں، ایک آنکھ، ایکس X کا نشان، پائرامیڈ، اور کچھ ہندسے مثلا” 666، 322 وغیرہ
ناظرین حیرت انگیز طور پر جہاں جہاں ان کی تصاویر ہوں گے وہاں وہاں کالے جادو کے اثرات ہوں گے۔ والدین اور بڑوں کی نافرمانی، غصہ، تشدد، عدم برداشت، ٹینشن، خود پسندی اور "میں” آئے گی۔
2۔ناظرین دوسری چیز ایم کے الٹر ہے:
یہ انگریزی میں MK Ultra کہلاتا ہے یعنی ایم سے مائنڈ، کے  سے کنٹرول اور الٹرا۔
 امریکی اور دیگر ممالک کی سیکرٹ ایجنسیوں نے دنیا کی بڑی یورنیورسٹیز کے سائنسدانوں، ماہرینِ نفسیات اور ڈاکٹرز سے مل کر انسانی دماغ کو قابو کرنے کے طریقے ایجاد کئے تھے۔ یہ کئی طرح کی سائیکلوجیکل ٹیکنیکس سے مل کر بنے ہوتے ہیں۔ اس کا شکار شخص اپنے قابو میں نہیں ہوتا۔ بلکہ ایک روبوٹ کی طرح کام کرتا ہے اور دور بیٹھے لوگ ریموٹ سے اسے استعمال کرتے ہیں۔
کالا جادو اور ایم کے الٹرا کی مشترکہ مثال بھی ملاحظہ فرمائیں کہ کئی سال قبل  سعودی عرب کے سب سے دلیر بادشاہ شاہ فیصل شہید کا قاتل ان کا اپنا بھتیجا تھا۔ یہ بیرون ملک پڑھنے گیا اور ایک دجال یا شیطان کی پیروکار لڑکی کے جال میں پھنس گیا۔ اس نے اپنے حسن اور جھوٹی محبت کے علاوہ یہ دونوں طریقے اس پر چلائے اور شرط رکھی کہ اپنے چچا کو قتل کرنا ہو گا۔ چنانچہ شاہ فیصل کے بھتیجے نے کنگ شاہ فیصل کو قتل کردیا ۔ یا درہے بھتیجا قتل کے وقت مدہوشی کی سی کیفیت میں تھا۔
3۔ناظرین تیسری چیز  مائیکرو چپس ہیں:
 انسانوں یا چیزوں میں نینو ٹیکنالوجی کی مدد سے انتہائی چھوٹی چپس لگا دی جاتی ہیں جن کا علم نہیں ہونے دیا جاتا۔ ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں ، خاص طور پر مسلمان ممالک کے اہم رہنماوں  کے جسم میں غیر محسوس طریقے سے یعنی کسی  آپریشن کے دوران جسم کے اندر کہیں ی چھوٹی چھوٹی چپس لگا دی جاتی ہیں۔ یہ چپس ہائی فریکوئنسی مائکرو بیمز خارج کرتی ہیں اور اپنے کیرئیر پر سگنلز کے ذریعے آہستہ آہستہ اثر انداز ہوتی ہیں بالآخر خودکشی، مارکیٹ میں فائرنگ اور کسی بھی قسم کے کام کروا سکتی ہیں۔ اس میں مصنوعی دماغی سگنلز اور مصنوعی یاداشت۔ مثلا” EDOM (Electronic Dissolution of Memory) جس میں انسان کی یاداشت کو دور فاصلے سے ہی کنٹرول یا ختم کر دیا جاتا ہے۔چنانچہ انہیں چپس کے ذریعے حکمرانوں کے دماغ کو بھی کنٹرول کیا جاتا ہے۔
4۔ ناظرین چوتھی چیز شارٹ ویژن ہے:
شارٹ ویژن  کئی قسم کی سکرینز خصوصا” ٹیلی ویژن اور سمارٹ فون کے ذریعے دیکھی جانے والی ویڈیوز میں یہ استعمال کی جاتی ہیں۔ ایک عام ویڈیو میں فی سیکنڈ 45 ساکن فریمز یا تصاویر ہوتی ہیں۔ ان میں سے صرف ایک فریم میں اپنے مطلب کی چیزڈال کر  بار بار دکھا کر انسانی لاشعور سے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاتے ہیں۔ یہ تصاویر کیوں کہ انتہائی تیزی سے گزر جاتی ہیں لہذا آنکھ سے دیکھ کر سمجھ نہیں آ پاتی لیکن لاشعور میں ان کے عکس اچھی طرح پہنچتے ہیں اور سیو ہو جاتے ہیں۔ اشتہارات حتی کہ انتخابات کے حوالے سے بھی کامیاب تجربات ہو چکے ہیں۔ عوام اور خصوصا” بچوں کو فاسٹ فوڈ کا "نشہ” بھی اس کے ذریعے لگایا جاتا ہے۔
مختلف کمپنیاں اپنی ایڈورٹائزنگ میں اسی تکنیک کو اختیار کرتی ہیں۔ مثلا پیپسی پورے ملک میں اتنی چاکنگ کرتی ہے کہ آپ مشرق مغرب شمال جنوب حتی کہ اوپر کی طرف بھی دیکھتے ہیں تو دین میں سینکڑوں مرتبہ پیپسی کا لوگو، کلر اور نام آپ کی آنکھوں کے سامنے سے گزرتا ہے۔
اسی طرح دنیا بھر کے معروف نیوز چینلز کے لوگو،پرومو، وغیرہ میں اس قسم کی چیزیں بار بار دکھائی جاتی ہیں۔ جیونیوز اور دیگر چینل ایک آنکھ مختلف اینگل سے بڑی تیزی کے ساتھ بار بار دکھاتے رہتے ہیں۔
5۔ناظرین پانچویں چیز  بیک ٹریکنگ ہے:
 موسیقی کو قرآن پاک اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان کی آواز قرار دیا ہے۔شاید آج سے پندرہ سو سال قبل یہ بات سمجھنا مشکل ہو کہ یہ شیطانی آواز کیسے ہے لیکن اب یہ بات تحقیق سے ثابت ہو چکی ہے کہ ایلومیناتی کے لوگ موسیقی کی دھنوں میں شیطانی پیغام فیڈ کرکے مشہور گیت بناتے ہیں۔
 دماغ کو کنٹرول کرنے کی اس ٹیکنیک میں موسیقی کے اندر مزید شیطانی پیغامات اور آوازیں ملا دی جاتی ہیں۔ عام طور پر یہ اس طرح کے جملے ہوتے ہیں: "میں شیطان سے محبت کرتا ہوں”، "مجھے اپنے ماں باپ سے نفرت ہے”، "میں devil ہوں” یا "Devil میرا یار” وغیرہ۔ یہ پیغامات کیوں کہ خاص سنائی نہ دینے والی فریکوئنسی میں ہوتے ہیں، یابڑی تیزی سے بولے جاتے ہیں، یا دھنو کی شکل میں ہوتے ہیں ،  لہذا کان تو نہیں سُن پاتے لیکن لاشعور میں اچھی طرح پہنچتے ہیں۔ اکثر چیزوں کے بیک گراونڈ میوزک میں یہ بیک ٹریکنگ تکنیک پائی جاتی ہے خصوصا” کارٹونز اور ویڈیو گیمز میں۔
اس کی  کئی مثالیں ہیں کہ لوگوں نے قتل و غارت کیا اور ثابت ہوا کہ یہ کسی بینڈ کے بیک ٹریک کئے ہوئے گانوں کو سننے کی وجہ سے ہوا۔ بعض موقعوں پر امریکی عدالتوں نے قاتل کے ساتھ گانا بنانے والے بینڈ کو بھی سزا سنائی۔
نوٹ: یاد رہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ ریسرچ یہودیوں نے کی ہے۔ اور وہ بھی بچوں پر۔ اور بچوں کے بھی تحت الشعور اور لاشعور پر۔ لہذا سب سے زیادہ بچوں کی حفاظت کی ضرورت ہے۔فلسطینی تنظیم حماس کے بانی شیخ احمد یسین فرماتے تھے: "ہماری یہود سے جنگ ہمارے بچوں پر ہے۔ یا تو وہ ہمارے بچوں کو اپنے رنگ میں رنگ لیں گے یا پھر ہمارے بچے بڑے ہو کر ان سے بدلہ لیں گے
حفاظت
ناظرین اب سب سے اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کیا کریں، کیا ہمارے پاس کوئی حفاظتی تدبیر ہے یا نہیں۔ تو ناظرین اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس طرح ہی شیطانی ہاتھوں کا کھلونا بنا کر نہیں چھوڑ دیا۔ بلکہ حفاظت اور نکلنے کا پورا راستہ بتایا۔ وہ الگ بات ہے کہ کوئی اگر ان تدابیر کو اختیار نہ کرے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے۔
چنانچہ دجالی فتنوں سے حفاظت کا سب سے بڑا ہتھیار قرآن پاک، اللہ کا ذکر اور خاص طور پر سورہ کہف کی تلاوت ہے۔ اگر ہم سورہ کہف کی تلاوت کو اپنا معمول بنا لیں ، یا کم از پہلے رکوع کی تلاوت کو ہی اپنا معمول بنا لیں تو یہ ایسا حفاظتی ہتھیار ہے جو آپ کو دنیا کے ہر فتنے خصوصا دجالی فتنے سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ سورہ کہف کی تلاوت سے انسان کو ایسا نور عطا ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ حق اور باطل، خیر اور شر، فتنے اور نعمت میں خود فرق کرسکتا ہے۔ اسی دور کے بارے فرمایا گیا تھا کہ اس وقت مومن کی خوراک اللہ کا ذکر ہوگا۔ یعنی جب دجالی قوتیں ایک مومن کو زیر کرنے کے لیے تمام راستے حتی کہ خوراک بھی بند کردیں گی تو مومن اللہ کے ذکر سے اپنی بھوک نہ صرف مٹائے گا بلکہ بھوک حقیقتا مٹے گی بھی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہماری تمام دجالی فتنوں اور گمراہی میں ڈالنے والے فتنوں سے حفاظت فرمائے۔

Monday, October 22, 2018

کاروباری ترقی کے لئے پانچ سادہ اصول


کاروباری ترقی کے لئے پانچ سادہ اصول
آپ کوئی نیا کاروبار کرنے جارہے ہیں یا آپ کامیابی سے کوئی کاروبار پہلے سے چلارہے ہیں ایک بات تو طے ہے کہ کاروبار میں ترقی کے ہر وقت مواقع موجود ہوتے ہیں۔ ہمیں اس میں سے اپنا حصہ لینے کےلئے اپنےآپ کو تیار کرنا ہوتاہے۔ ٹاپ پوزیشن ہمیشہ خالی ہی رہتی ہے۔ کاروبار میں آگے بڑھنے کے لئے نئ حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ جتنا بھی کاروباری منافع کیوں نہ کما رہے ہوں۔ مندرجہ ذیل پانچ اصولوں پر تھوڑی توجہ دے کر آپ اس منافع کو دوگنا بلکہ تین گنا تک بڑھا سکتےہیں۔ بزنس کو ترقی دینے کے پانچ سادہ سے اصول ہیں۔
۔۱۔ تجربہ اور تعلیم:
 کسی بھی کام میں آگے بڑھنے اور اپنے آپ کو ثابت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ اس کام سے متعلق مکمل معلومات اور تعلیم حاصل کریں۔ اور پھر اس تعلیم کو عملی طور پر آزمائیں۔ آپ کا کام جتنا زیادہ تجربہ کی آگ سے گزرے گا اتنا ہی زیادہ اس میں ترقی کے مواقع واضع تر ہوتے جائیں گے۔ موجودہ دور انفارمیشن کا دور ہے۔ آپ اپنے بازوں کے زور پر ترقی نہیں کرسکتے بلکہ دماغ کی طاقت سے ترقی کرسکتے ہیں۔ اور دماغ کی طاقت تعلیم سے حاصل ہوتی ہے۔ دنیا کے امیرترین لوگ جسمانی لحاظ سے اتنے کمزور ہیں کہ اگر کوئی ریڑھی والا ایک مکا مارے تو مر جائیں گے لیکن پیسے کو اپنی طرف کھینچنے کے لحاظ سے ریڑھی والے اور اس تعلیم والے میں بہت فرق ہے۔ ریڑھی والا اور مزدور اپنی جسمانی طاقت کا استعمال کرتا ہے اور رات کو چار پانچ سو لے کر آتا ہے۔ جبکہ تعلیم یافتہ شخص اپنی تعلیم کی روشنی میں عقل استعمال کرکے دو دو لاکھ بھی شام کو گھر لاتا ہے۔
۔۲۔ اشیاء یا سروسز کا اعلی معیار ہے۔
 اپنے کاروبار کو دوسروں سے منفرد کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ کی پراڈکٹس یا سروسز دوسروں کے مقابلے میں اعلی معیار کی ہوں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ اعلی معیار کی پراڈکٹس اسی قیمت یا اس سے بھی کم قیمت پر لوگوں کو مہیا کی جائیں۔ کیونکہ اشتہار بازی سے لوگ ایک ہی بار دھوکہ کھائیں گے دبارہ نہیں آئیں گے۔ جبکہ اس کے برعکس اگر آپ کی چیز اچھی اور سروس معیاری ہوگی تو لوگ ہی آپ کا اشتہار بن جائیں گے۔ آپ کو کوئی اشتہار بازی کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے کاروبار میں ترقی کا راز یہ ہے کہ آپ پرنٹنگ پریس سے کاغذ پر اشتہار نہ بنوائیں بلکہ چلتے پھرتے زندہ انسان کو ہی اشتہار بنا دیں۔ جو مفت میں آپ کی مشہوری کرتے رہیں گے۔یہ کام کرنے کے لیے ایمانداری۔ اعلی اخلاق۔
۔۳۔ کسٹمر کئیر:   یعنی گاہک کا خیال رکھنا
 اگر آپ کاروبار کو مستقل بنیادوں پر استوار کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے گاہکوں کی ضروریات اور ان کی تکالیف کا خیال رکھنا ہوگا۔ آپ کی پراڈکٹس یا سروسز میں کیا ایسا ہے جو لوگوں کے لئے مفید ہے۔ اپنی پراڈکٹس میں افادیت کے عنصر کا اضافہ کریں۔ اپنی پسند نا پسند سے زیادہ اپنے گاہکوں کی پسند یا ناپسند کا خیال رکھیں۔ اس طرح جو پراڈکٹس تیار ہونگی وہ مستقل طور پر اپکے کسٹمرز کی ڈیمانڈ لسٹ میں جگہ بنا پائیں گی۔کسی چیز کے انتخاب میں گاہک کو اپنی دیانت دارانہ رائے کے مطابق اچھا مشورہ ضرور دیں لیکن اتنا زیادہ دباو نہ ڈالیں کہ گاہک مجبورا چیز لے جائے اور گھر جا کر اسے پسند نہ آئے۔
۔۴۔ کسٹمر ہمیشہ درست ہوتا ہے:
 غلطی سب سے ہوتی ہے اگر ہم غلطی کرتے ہیں تو ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ہم سے بازپرس نہ کرے بلکہ اس کو بھلا کر آگے بڑھ جائیں۔ یہی اصول آپ کے گاہکوں پر بھی ہوتا ہے۔ اگر کبھی وہ غلط بات پر بھی اسرار کریں تو ان کے ساتھ بحث میں وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے تھوڑا ایکسٹرا ان کو سروس مہیا کرنے میں صرف کیا جائے۔ کسٹمر سروسز کا بہترین معیار آپ کے گاہکوں کو مطمئن کرے گا جس پر آپ کے گاہک نہ صرف خود دوبارہ آپ سے کاروبارکریں گے بلکہ دوسروں کو بھی آپ کی طرف ریفر کریں گے۔
۔۵۔ ڈیٹابیس سافٹ وئیر:
 بزنس کی ترقی میں جس چیز کی بہت اہمیت ہے وہ ہے اپنے کاروبار کی صحیح صورتحال کو سمجھنا۔ مخصوص اوقات میں کیا سیل ہوا؟ کس کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے کس میں منافع زیادہ حاصل ہوا؟ کس چیز کی کاسٹ آف سیل زیادہ ہے؟ کون سے کسٹمر سے کتنا بزنس کیا اور کتنا منافع کمایا؟ سٹاک کتنا پڑا ہے اور اس کی قیمت کیا ہے؟ کون سی اشیاء اسٹاک میں ختم ہونے والی ہیں؟ کتنے پیسے واجب الادا ہیں اور کتنے لوگوں سے لینے ہیں؟ خرچوں میں کتنا اضافہ ہوا اور کس مد میں زیادہ خرچہ ہوا؟۔۔۔۔ ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کا بروقت جواب ملنا بزنس کی ترقی کے لئ بہت ضروری ہے۔ ان سوالات کے جواب کتابی حساب کتاب سے حاصل کرنا  اگر نا ممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔ اگر ہم اپنے کاروبار کو کمپیوٹرائیز کرلیں تو ان جوابات کا حصول ایک کلک کی دوری پر رہ جاتاہے۔ اور اس طرح آپ کو اپنے پورے کاروبار کی صحیح صورتحال کا علم رہتا ہے اور آئندہ کے لیے آپ اسی صورتحال کے تناظر میں اپنی پالیسی بناتے ہیں۔

آخری بات یہ کہ جس طرح ہمارا خالق اللہ ہے اسی طرح ہمارا رازق بھی اللہ ہے۔ کاروبار تو اسباب کے درجے کی چیز ہے جسے اختیار کرنے کا ہمیں حکم ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے زیادہ رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کم رزق دیتا ہے۔ رزق کی کمی اور زیادتی کے اللہ نے اصول بھی بنا رکھے ہیں جنہیں قرآن و حدیث میں واضح طور پر بیان کردیا گیا ہے۔ مثلا
قرآن پاک میں ارشاد ہے: ویمحق اللہ الربا ویربی الصدقات۔
اللہ سود کو مٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ اس سے ہمیں بزنس میں کامیابی حاصل کرنے کا راز پتا چلا کہ سودی کاروبار میں نقصان اور غیرسودی کاروبار  اور پھر صدقہ و خیرات میں برکتیں ہیں۔
اسی طرح، ارتکاز دولت۔ناپ تول میں کمی۔ملاوٹ۔دھوکہ دہی۔ فراڈ۔ دونمبری۔ جھوٹ۔ ذخیرہ اندوزی۔ یہ ساری وہ چیزیں اور وہ اصول ہیں جنہیں قرآن و حدیث میں نہ صرف کاروبار دنیا بلکہ انسان کی آخرت کے لیے بھی تباہی کا ذریعہ بتایا گیاہے۔
بزنس میں کامیابی کا سب سے بڑا اصول یہی ہے کہ آپ مال کو اپنا نہ سمجھیں بلکہ اللہ کا مال سمجھیں۔

عورت کو طلاق کا حق


سیدعبدالوہاب شیرازی
میڈیا کا کام معاشرے میں افراتفری اور نفرت پھیلانا ہے۔ چنانچہ میڈیا ہر منفی خبرکی کھوج میں لگا رہتا ہے۔ اگر منفی خبر نہ بھی ملے تو مثبت خبر کو بھی منفی بنا کر بریکنگ نیوز نشر کی جاتی ہے۔ اس کی تازہ مثال عورتوں کو طلاق کا حق دینے والی خبر ہے۔ جسے سن کر میں خود بھی اور یقینا آپ بھی بہت حیران ہوئے ہوں گے۔
لیکن آج ایک ٹاک شو میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز صاحب نے اس کی  جو اصل حقیقت بتائی وہ تو پہلے سے ہی علمائے کرام مسلسل حکومتوں سے کہتے آئے ہیں کہ یہ قانون بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ
1۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک تو اس بات پر غور کررہی ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاق دے تو اسے تعزیر یعنی سزا ملنی چاہیے۔ اور بیک وقت تین طلاق کو جرم قرار دیا جائے۔ کیونکہ بیک وقت تین طلاق دینے سے تین واقع ہو جاتی ہیں اور پھر مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں، اگر اسے قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے گا تو جس نے طلاق دینی ہوئی وہ ایک ہی طلاق دے گا۔
2۔ نکاح نامے میں ایک شق پہلے سے شامل ہے جس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ کیا خاوند طلاق کا حق بیوی کو بھی تفویض کرتا ہے یا نہیں؟ اور عام طور پر نکاح کے موقع پر اس شق پر کراس مار دیا جاتا ہے، تو اسلامی نظریاتی کونسل نکاح خواں کو اس بات کی پابند بنانا چاہتی ہے کہ وہ اس شق کو باقاعدہ خاوند کو پڑھ کر سنائے اور خاوند جو بھی جواب دے اسے نکاح نامے میں شامل کردیا جائے۔ یعنی اگر خاوند ہاں کرے تو ہاں اور نا کرے تو نا لکھ دیا جائے۔
(ظاہر ہے شرعی اعتبار سے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، )
3۔جس طرح نکاح نامہ پرنٹڈ بنا ہوا ہے ، اسلامی نظریاتی کونسل ایک طلاق نامہ بھی پرنٹڈ بنانا چاہتی ہے تاکہ جس نے طلاق دینی ہے وہ طلاق کے برسٹ چلانے کے بجائے اس طلاق نامے کو فل کرکے اور اس پر دستخط کرکے طلاق دے۔
( اور ظاہر ہے اس طرح کا طلاق نامہ بنا تو اس پر ایک ہی طلاق کا ذکر ہوگا۔ اور اس طرح بعد میں اگر صلح ہو گئی تو رجوع آسانی سے ہو سکے گا۔)
میرے خیال میں قبلہ ایاز صاحب کی بتائی ہوئی تینوں باتیں ایسی ہیں جو عائلی قوانین کو بہتری کی طرف لانے کی ایک کوشش ہے۔


Friday, October 19, 2018

رزق کے پانچ دروازے ہیں

 (سیدعبدالوہاب شیرازی)
آج کل ہر شخص رزق کے حصول کے لیے اپنا سارا وقت، ساری توانائیاں، اور ساری زندگی لگا دیتا ہے۔ لیکن ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں،جنکو وافر مقدار میں رزق ملتا ہو، اور وہ اپنی ہر ضرورت پوری کرتے ہوں۔ اور ایک بہترین اور باعزت زندگی گزارتے ہوں۔
رزق کے پانچ  دروازے ہیں۔ پہلے تین تو صرف مسلمانوں کے لیے ہیں اور چوتھا ،پانچواں ساری دنیا کے لیے ہے یعنی مسلم، غیر مسلم ، بت پرست ، دہریے وغیر۔ اگر ہمیں رزق کے دروازوں کا علم ہوگا تو کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوگی۔ہم ادھر ادھر وقت ضائع نہیں کریں گے اور سیدھے اندروازوں پر پہنچ کر رزق حاصل کریں گے۔ اس کو آپ اس مثال سے سمجھیں کہ جیسے کوئی بھی شخص کوئی کاروبار وغیرہ شروع کرنا چاہتا ہے تو پہلے کتنا غور  وفکر کرتا ہے کہ میں ایسا کون سا کام شروع کروں کہ میرا وقت ضائع نہ ہو اور اچھا منافع ہو، اس کے لیے وہ اعلیٰ تعلیم، کے ساتھ ساتھ کئی لوگوں سے مشورہ بھی کرتا ہے۔پھربڑی جستجو، غور وفکر، اور مشاورت کے بعد وہ اپنی طرف سے پوری کوشش کرنے کے بعد وہی کام شروع کرتا ہے جس سے زیادہ پیسہ آنے کی امید ہوتی ہے۔
بالکل ایسے ہی آج ہم آپ کو پانچ  ایسے راز بتا رہے ہیں، جو رزق کو ایسے کھینچتے ہیں جیسے مقناطیس لوہے کو۔ اور یہ پانچ رزق کے دروازے کسی عام انسان کے بتائے ہوئے نہیں بلکہ رزق دینے والی ذات اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں۔
تو ان پانچ  میں سے پہلے تین دروازے صرف مسلمانوں کو ہی مل سکتے ہیں، کوئی غیر مسلم ان تین دروازوں کو حاصل نہیں کرسکتا۔البتہ اگلے دو دروازے ایسے ہیں جو غیر مسلموں کے لیے بھی کھلے ہیں۔ یعنی ان دو دروازوں سے غیر مسلم بھی رزق حاصل کرتے ہیں۔
1۔ہرزق حاصل کرنے کا سب سے پہلا دروازہ نماز ہے۔ جو شخص بھی نماز کا اہتمام کرتا ہے اللہ پاک اس کو برکت والا رزق عطا فرماتے ہیں۔ اہتمام یہ ہے کہ نماز کے وقت سے پہلے یا وقت ہوتے ہی اس کی تیاری میں لگ جانا اور وقت پر نماز ادا کرنا۔
2۔رزق حاصل کرنے کا دوسرا دروازہ استغفار ہے۔جو شخص کثرت سے استغفار کرتا ہے اللہ پاک اسے غیب سے رزق عطا فرماتے ہیں کیونکہ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جو کثرت سے استغفار کرتا ہے اللہ پاک اسے ہر غم سے نجات عطا فرماتے ہیں، ہر پریشانی میں راستہ دیتے ہیںاور ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتے ہیں کہ جہاں اس کا گمان بھی نہ ہو۔ ۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ کثرت کا مطلب ہے کہ کم از کم تین سو مرتبہ۔ تو جو روزانہ تین سو سے زیادہ مرتبہ استغفار کرے گا ان شاءاللہ اسے بہترین رزق ملے گا۔
3۔رزق حاصل کرنے کا تیسرا دروازہ تقویٰ ہے۔ تقویٰ کے معنی گناہوں سے بچنا ہے۔ یاد رہے کہ مسلمان کے ذمہ ہر نیکی کرنا نہیں ہے لیکن ہر گناہ سے بچنا ہر مسلمان کے لیے لازم ہے۔ جو ہر گناہ سے بچتا ہے وہ اللہ کے ہاں متقی کہلاتا ہے۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم ہر کام کرنے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ اس کام سے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع تو نہیں فرمایا۔ اگر منع فرمایا ہے تو ہم رک جائیں ۔
تو جوتقویٰ اختیار کرے گا اللہ پاک اسے بغیر محنت کے رزق عطا فرمائیں گے۔ قرآن پاک میں ارشاد خداوندی ہے: ومن یتق اللہ یجعلہ مخرجا، ویرزقہ من حیث لا یحتسب۔
جو اللہ کا ہوجاتا ہے تو پھر اللہ اپنے بندوں کو اسکی خدمت پر مامور فرمادیتے ہیں۔
4۔ انفاق اور صدقہ۔ رزق حاصل کرنے کا چوتھا دروازہ دوسروں پر خرچ کرنا ہے۔ خرچ کرنے کے بہت سارے مصرف ہیں۔ خاص طور  پر اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنا، سب سے زیادہ ضروری، اور رزق کو کھینچتا ہے۔ جو اپنے رشتہ داروں خاص طور پر قریبی رشتہ داروں(مثلا، چچا، ماموں،پھوپھی، بہنیں،خالائیں، وغیرہ) ان پر خرچ کرے اللہ اس کی عمر اور رزق میں برکت عطا فرماتے ہیں۔
اس بات کو حضور علیہ السلام نے بیان فرمایا:کہ جو یہ چاہتا ہو کہ اس کی عمر لمبی ہو اور رزق میں وسعت ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے اور ان پر خرچ کرے۔رشتہ داروں کے بعد باقی غریب غربا، فقیر مسکین۔ سوالی۔ پر بھی خرچ کرنا چاہیے۔ اور پھر خاص طور پر دین کے کاموں میں خرچ کرنے کو تو اللہ نے اپنے ذمہ قرض قرار دیا ہے ، اور جو اللہ کو قرض دے اللہ اس کا 10 فیصد دنیا میں اور 70 فیصد آخرت میں لوٹائیں۔ یعنی جس نے ایک ہزار دین کی محنت میں خرچ کیا تو اللہ دس ہزار اس کی زندگی میں ہے اسے لوٹا دیں گے۔ اور ستر فیصد آخرت میں ملے گا۔
دوسروں پر خرچ کرکے اپنے لیے رزق کے دروازے کھولنا یہ وہ دروازہ ہے جو مسلمانوں اور کافروں سب کے لیے ہے۔جو کافر بھی کسی محتاج پر خرچ کرتا ہے اللہ اسے بھی دنیا میں عطا کرتے ہیں، البتہ آخرت میں اس کے لیے کچھ نہ ہوگا۔
5۔رزق حاصل کرنے کا چوتھا دروازہ ذریعہ معاش اختیار کرنا ہے اور یہ دروازہ بھی سب کے لیے ہے، کوئی کافر ہو یا مسلم، بتوں کو پوجنے والا ہو یا آتش پرست۔ اگر وہ معاش کا کوئی ذریعہ اختیار کرے گا تو اللہ اسے رزق عطا فرمائیں گے۔مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت نے پہلےچار دروازے بھلا دیے اور آخری دروازے کو ہی لازمی سمجھ لیا۔ جبکہ ان  چار  دروازوں سے رزق حاصل کرنا بہت آسان ہے.یہاں کوئی میری بات سے یہ مطلب نہ لے کہ ملازمت ، کاروبار یا معاش کا کوئی بھی دوسراذریعہ جو ہم نے اختیار کیا ہوا ہے اسے چھوڑ کر بیٹھ جائیں اور کام نہ کریں۔ کام ضرور کریں لیکن اگر ہم پانچویں  دروازے کے ساتھ ساتھ پہلے چار  دروازوں کو بھی استعمال کریں گے تو ہم تھوڑی محنت میں ہی زیادہ رزق ملے گا۔ہماری مشقت کم ہوجائے گی۔ اور ہماری کمائی غیر ضروری جگہوں پر نہیں لگے گی اور ہمارا مال ضائع نہیں ہوگا .گھر میں رکھی ہوئی مرغی کو آپ اس کی خوراک ایک جگہ برتن میں رکھ کر دے دیں تو وہ کم وقت اور کم مشقت میں اپنا پیٹ بھر لے گی اور اگر وہی خوراک آپ پورے صحن میں بکھیر دیں تو اسے وہی خوراک حاصل کرنے کے لیے وقت بھی زیادہ لگے گا اور مشقت بھی۔اب فیصلہ آپ پر ہے کہ آپ کس دروازے کو اختیار کرتے ہیں ؟۔

Thursday, October 11, 2018

انسانوں کی جنریشن ایکس x generation of humans

انسانوں کی جنریشن ایکس
(سیدعبدالوہاب شیرازی)

آپ نے ٹیکنالوجی کی چیزوں مثلا لیپ ٹاپ موبائل وغیرہ میں جنریشن کا لفظ استعمال ہوتے دیکھا ہوگا۔ جیسے آئی تھری فورتھ جنریشن۔ آئی سیون نائن جنریشن وغیرہ۔ بالکل اسی طرح انسانوں کی تقسیم بھی مختلف جنریشن میں کی جاتی ہے۔ چنانچہ جو  لوگ انیس سو اکسٹھ(1961) سے انیس سو اکیاسی(1981) کے درمیان پیدا ہوئے  ہیں انھیں جنریشن ایکس کہا جاتا ہے،کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ تبدیلیاں جنریشن ایکس نے ہی دیکھی ہیں ، کیونکہ جنریش ایکس کے دور میں زمانے اتنا زیادہ اور اتنی تیزی سے بدلا ہے کہ پچھلے زمانے کا کوئی انسان آج آجائے تو چکرا کر رہ جائے گا۔ جنریش ایکس اس انسانی تاریخ کی سب سے بڑی تبدیلی اور سائنس کی ترقی کے عین موقع پر پیدا ہونے والے لوگوں کو کہا جاتا ہے۔ جنہوں نے ان چیزوں کو بھی دیکھا جو صدیوں سے انسانوں کے زیر استعمال تھیں اور ان کو بھی دیکھا جو اچانک سے ایجاد ہوئیں اور چھا گئیں۔

مہمان کے آنے پر مرغی کو بھگا بھگا کر پکڑنے سے لے کر فارمی مرغی کے پھٹے پر ٹھک ٹھکا ٹھک تک۔سارا دور اس جنریشن نے دیکھا۔
پردہ سکرین سے لے کر ہولوگرام اور وی آر ٹیکنالوجی تک۔ ٹانگے سے لے کر میٹرو ٹرین تک۔ تجوریوں سے لے کر ماسٹر کارڈ تک۔تار مارنے ، فیکس کرنے سے لے کر ایس ایم ایس اور وٹس اپ تک۔ پرانے ریکارڈر سے یوایس بی سٹک تک۔بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی سے لے کر سمارٹ ایل سی ڈی تک۔ڈائل گھمانے والے فون سے لے کر ٹچ سکرین اور وائس ڈائل سمارٹ فونز تک۔پتنگ اڑانے سے ڈرون اڑانے تک۔ صدیق دی ہٹی سےلے کر ایمازون اور دراز پی کے تک۔پیتل کی تار سے لے کر وائی فائی تک۔ چور پکڑنے والے کتوں سے لے کر سی سی ٹی وی کیمروں تک۔عشاء کے بعد دادی جان کی کہانیوں سے لے کر فیس بک اور سوشل میڈیا میں گم ہونے تک۔ ڈسپرین کے فضائل سے لے کر ڈسپرین کے نقصاندہ قرار دیے جانے تک۔سڑک کنارے لگی مداری دیکھنے سے لے کر  سوشل میڈیا کی لائیو سٹریم تک۔ سپیرے کی پٹاری میں چھپے عجیب سانپ کو دیکھنے کی جستجو سے لے کر یوٹیوب پر جدید چیزوں کی اَن باکسنگ دیکھنے تک۔دلہن کی ڈولی سے لے کرپھولوں سے سجی  لیموزین کارتک۔ شکر ، دیسی گھی  ملے سفید چاولوں کے ولیمے سے لے کر میرج ہال کی بے شمار ڈشوں تک۔کلینڈر سے لے کر ٹکٹنگ آفیسر تک۔ پھیری والے بابوں سے لے کرایم بی اے کیے ہوئے  مارکیٹنگ کے بابووں تک۔ہاتھ والے پنکھوں سے لے کر سولر اے سی تک۔ لالٹین اور دیے جلانے سے ایل ای ڈی تک۔جندر سے لے کر فلور مل تک۔ سحری و افطاری کے وقت ڈاکٹر اسرار احمد کے دروس قرآن سے لے عامر لیاقت کی فنکاریوں تک۔ صدرپاکستان ایوب خان کے امریکا میں تاریخی استقبال سے لے کر وزرائے اعظم کے جوتے اتارنے تک۔ علاقے کی پنچائیتوں اور جرگوں  سے لے کر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس تک۔سدھائے ہوئے کتےاور بندروں  سے لے کر آرٹیفیشل انٹیلی جنس(اے آئی ٹیکنالوجی) تک،اپنے سینوں میں عروج و زوال ، تغیر و تبدیلی کی ہزاروں داستانیں چھپائے ہوئے ہیں۔


 انسانوں کی یہ جنریشن بڑی قیمتی ہے،کبھی جنریشن ایکس سے تعلق رکھنے والے کسی انسان کے پاس بیٹھ کر ماضی کی یادیں ، حالات کی تبدیلیاں اور وقت کے تغیرات کریدنا شروع کریں، مجھے یقین ہے کہ آپ کو بہت کچھ سننے کو ملے گا۔بعض ممالک میں  ان کے پاسپورٹ پہ بھی باقاعدہ ایکس جنریشن درج ہوتا ہے۔جنریش ایک 1961 سے 1981 کے دورا ن پیدا ہونے والوں کو جبکہ جنریشن وائی 1982 سے 1995 تک پیدا ہونے والوں کو۔ اور جنریشن زیڈ 1995 سے 2012 کے دوران پیدا ہونے والوں کو کہا جاتا ہے۔ جنریشن ایکس چونکہ پچھلے اور اگلے یعنی پرانے اور جدید دور اور ان کی چیزوں کو دیکھ چکی ہے اس لیے اگلے پندرہ بیس سال بعد جب دنیا مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گی، اور یہ جنریشن دادا ابو اور دادی جان کی سیٹ پر بیٹھ جائے گی، تب پوتے پوتیاں اور نئی نسل کے نوجوان ان کی پرانی اور اپنے بچپن کے زمانے کے حالات، کہانیوں اور روز مرہ کی زندگی کی چیزوں کے بارے سن کر حیرت زدہ بھی ہوں گے اور شاید یقین بھی نہ آئے۔

......................
x generation of humans

The Names of Generations in the U.S. 

While some generations are known by one name only, such as the Baby Boomers, names for other generations is a matter of some dispute among experts. 
Neil Howe and William Strauss define recent generational cohorts in the U.S. this way:
  • 2000 to present: New Silent Generation or Generation Z
  • 1980 to 2000: Millennials or Generation Y
  • 1965 to 1979: Thirteeners or Generation X
  • 1946 to 1964: Baby Boomers
  • 1925 to 1945: Silent Generation
  • 1900 to 1924: G.I. Generation
The Population Reference Bureau provides an alternate listing and chronology of generational names in the United States:
  • 1983 to 2001: New Boomers
  • 1965 to 1982: Generation X
  • 1946 to 1964: Baby Boomers
  • 1929 to 1945: Lucky Few
  • 1909 to 1928: Good Warriors
  • 1890 to 1908: Hard Timers
  • 1871 to 1889: New Worlders
The Center for Generational Kinetics lists the following five generations who are currently active in America's economy and workforce:
  • 1996 to present: Gen Z, iGen, or Centennials
  • 1977 to 1995: Millennials or Gen Y
  • 1965 to 1976: Generation X
  • 1946 to 1964: Baby Boomers
  • 1945 and before: Traditionalists or Silent Generation